(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
معصومیت ایک کھلی کتاب کی مانند ہوتی ہے، جس کے ہر صفحے پر سچائی کی روشنائی سے حرف لکھے گئے ہوتے ہیں۔ اس میں کوئی پیچیدگی نہیں، کوئی پوشیدگی نہیں، کوئی سازش نہیں۔ مگر شاید یہی اس کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ وہ اپنی شفافیت میں اس قدر غیر محفوظ ہوتی ہے کہ فریب کی تاریکی آسانی سے اس کے اندر دراڑیں ڈال سکتی ہے۔
معصومیت پانی کے اس چشمے کی مانند ہے جو پہاڑوں کے بیچ سے بے ساختہ بہتا ہے، جسے اپنی سمت کا علم نہیں ہوتا۔ وہ ہر گزرنے والے پر اعتماد کرتا ہے، ہر راستے کو خیر مقدم کہتا ہے، ہر پتھر سے ٹکرا کر بھی اپنی پاکیزگی برقرار رکھتا ہے۔ مگر یہی اعتماد، یہی بہاؤ، اکثر اسے صحراؤں میں لے جاتا ہے، جہاں دھوپ اسے بے رنگ کر دیتی ہے، اور آخر کار وہ ریت میں جذب ہو کر اپنا وجود کھو بیٹھتا ہے۔
معصومیت کو ہمیشہ روشنی سے تشبیہ دی جاتی ہے، مگر یہ روشنی ایسی ہے جو خود کو نہیں بچا سکتی۔ یہ ایک دیا ہے جو ہوا کے جھونکوں پر بھروسہ کرتا ہے، مگر انہی جھونکوں میں اکثر بجھ جاتا ہے۔ دیے کی روشنی اور خلوص، اسے ان چالبازوں کے لیے ایک آسان ہدف بنا دیتی ہے جو سچائی کی حرمت کو نہیں سمجھتے۔ فریب، ہمیشہ معصومیت کی کچی دیواروں میں دراڑ ڈالنے کے درپے رہتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ معصومیت مزاحمت نہیں کرتی، وہ شکوہ نہیں کرتی، وہ بس حیرت میں ڈوبی رہتی ہے کہ کوئی اس کے ساتھ ایسا کیوں کر سکتا ہے۔
یہی معصومیت کی سب سے بڑی آزمائش ہے: وہ دنیا کی تلخ حقیقتوں کو قبول نہیں کر پاتی۔ وہ ایک ایسے خواب کی طرح ہے جو ہمیشہ اپنی تکمیل کے انتظار میں رہتا ہے، مگر حقیقت کی تیز دھار اس کے ریشمی دھاگوں کو ریزہ ریزہ کر دیتی ہے۔
لیکن پھر بھی، کیا معصومیت کا وجود ضروری نہیں؟ کیا یہ ممکن ہے کہ دنیا صرف چالاکی اور خودغرضی کے اصولوں پر چلتی رہے؟ اگر ایسا ہو تو شاید زندگی سے وہ سادگی، وہ حسن، وہ بے ساختگی ختم ہو جائے جو انسانیت کی اصل روح ہے۔ معصومیت کا فنا ہونا دکھ کی بات ضرور ہے، مگر اس کا وجود ایک معجزہ ہے۔ معصومیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ دنیا میں اب بھی کوئی چیز ہے جو ناپاکی سے آلودہ نہیں ہوئی، جو دھوکہ دینا نہیں جانتی، جو خود کو بچانے کے بجائے دوسروں پر یقین کرنے کو زیادہ اہم سمجھتی ہے ۔
معصومیت اگرچہ خود کو محفوظ نہیں رکھ سکتی، مگر یہ دنیا کو ایک ایسا رنگ ضرور عطا کرتی ہے جو کسی اور چیز میں نہیں۔ اور شاید یہی اس کی اصل طاقت ہے: وہ بار بار فریب کھا کر بھی، بار بار بکھر کر بھی، اپنی سچائی سے دستبردار نہیں ہوتی۔ وہ ہر بار دوبارہ جنم لیتی ہے، کسی نہ کسی دل میں، کسی نہ کسی نظر میں، اور دنیا کو یاد دلاتی ہے کہ ابھی سب کچھ ختم نہیں ہوا۔