مت کسی کو پکارو، میں آ رہا ہوں

غزل

مت کسی کو پکارو، میں آ رہا ہوں
مقتل کو سنوارو، میں آ رہا ہوں

قرینہ تمہیں سکھانے کے لیے
بے فیض بہارو، میں آ رہا ہوں

تمہارا بھی قرض ہے مجھ پر
پُر خار راہگزارو، میں آ رہا ہوں

پابندِ سلاسل رہا ہوں برسوں
اُجڑے ہوئے مزارو، میں آ رہا ہوں

ضیا بار پلکوں پہ سجا لوں گا تم کو
بجھتے ہوئے ستارو، میں آ رہا ہوں

مال و متاع پہ اپنی نظرِ ثانی کر لو
یوسف کے خریدارو، میں آ رہا ہوں

سندیسہ یہ میرے نعیم نے بھیجا ہے مجھے
تم زلف سنوارو، میں آ رہا ہوں

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top