مت کسی کو پکارو میں آ رہا ہوں
مقتل کو سنوارو میں آ رہا ہوں
قرینہ تمہیں سکھانے کے لئے
بے فیض بہارو، میں آ رہا ہوں
تمہارا بھی قرض ہے مجھ پر
پُر خار راہگزارو میں آ رہا ہوں
پابندِ سلاسل رہا ہوں برسوں
اُجڑے ہوئے مزارو میں آ رہا ہوں
ضیا بار پلکوں پہ سجا لوں گا تم کو
بجھتے ہوئے ستارو میں آ رہا ہوں
مال و متاع پہ اپنے نظرِ ثانی کر لو
یوسف کے خریدارو میں آ رہا ہوں
سندیسہ یہ میرے نعیم نے بھیجا ہے مجھے
تم زلف سنوارو میں آ رہا ہوں