مضبوطی کا فریب

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

کہا جاتا ہے کہ پہاڑ مضبوط ہوتے ہیں، مگر ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کی خاموشی میں زلزلے چھپے ہوتے ہیں۔ جب زمین کے اندر کی آگ اپنا راستہ تلاش کرتی ہے، تو وہی پہاڑ جنہیں کبھی نہ جھکنے والا سمجھا جاتا تھا، دھواں بن کر فضا میں بکھر جاتے ہیں۔ ہم انسان بھی اسی پہاڑ کی مانند ہیں، جنہیں سماج نے “مضبوط” رہنے کا فرمان سنا دیا ہے۔

مضبوطی کا یہ پیمانہ کیسا عجیب ہے! ہمیں سکھایا جاتا ہے کہ اپنی تکلیفوں کو اندر دفن کر دیں، کہ آنکھ کے کنارے پر لرزنے والے آنسو کمزوری کی علامت ہیں۔ لیکن کیا واقعی خاموشی ہر مسئلے کا حل ہے؟
شاید نہیں!

زندگی کی فطرت میں بہاؤ ہے۔ اگر دریا کے راستے میں بند باندھ دیا جائے تو پانی رک نہیں جاتا؛ وہ یا تو دباؤ سے بند کو توڑ دیتا ہے یا کسی اور سمت اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔ جذبات بھی اسی پانی کی مانند ہیں۔ انہیں دبایا جائے تو وہ اندر ہی اندر ہمیں کھوکھلا کر دیتے ہیں یا کسی لمحے اچانک پھوٹ پڑتے ہیں، تباہی پھیلاتے ہوئے۔

پانی دیکھنے میں نرم ہوتا ہے لیکن وقت کے ساتھ پتھر کو بھی کاٹ دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح دبے ہوئے جذبات انسانی ذات کو اندر سے گھن کی طرح چاٹ لیتے ہیں۔ سکون کبھی دبانے میں نہیں، بلکہ بہنے میں ہوتا ہے—زندگی کے بہاؤ کے ساتھ خود کو سنبھالنے میں۔

مدد طلب کرنا کمزوری نہیں، بلکہ ایک بصیرت ہے۔ کبھی یہ کسی قریبی انسان سے ملتی ہے، کبھی کسی پیشہ ور معالج سے، اور کبھی اپنی ذات کے ساتھ مکالمے سے۔ مگر شرط یہ ہے کہ ہم اپنی خاموشی کو توڑنے کا حوصلہ پیدا کریں۔
ہماری دنیا میں کمزوری کا اعتراف کمزور ہونا سمجھا جاتا ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی اصل مضبوطی ہے۔ جب ہم اپنی تکلیف بانٹتے ہیں تو نہ صرف خود کو ہلکا محسوس کرتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی یہ پیغام دیتے ہیں کہ وہ تنہا نہیں ہیں۔

مضبوطی کا مطلب سہنا نہیں بلکہ بہاؤ میں خود کو سنبھالنا ہے۔ زندگی کے مسائل کو صرف سہنے سے کچھ حل نہیں ہوتا۔ اصل حکمت تو اس میں ہے کہ ہم اپنی تکلیف کو پہچانیں، اس کا سامنا کریں، اور اس کے لیے مدد طلب کریں۔ سکون کسی کونے میں چھپنے سے نہیں بلکہ زندگی کے طوفانوں کے بیچ کشتی کو قابو میں رکھنے سے آتا ہے۔
زندگی کے سفر میں گرنا معمول کی بات ہے، مگر گر کر اٹھنے کا حوصلہ ہی اصل مضبوطی ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب ہم اپنے زخموں کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کے لیے مرہم تلاش کرتے ہیں، بجائے انہیں چھپانے کے۔

اور سب سے بڑھ کر، مضبوطی کا مطلب ایک دوسرے کے لیے سہارا بننا ہے۔ یہ ادراک کہ کوئی بھی شخص تنہا نہیں ہے، ہر آواز کو سننے والا کوئی موجود ہے۔ ہمیں اپنے ارد گرد ایک ایسا ماحول تشکیل دینا ہوگا جہاں لوگ اپنی تکلیف کو بانٹنے میں خوف محسوس نہ کریں۔

شاید یہی مضبوطی کی اصل تعریف ہے:
خاموشی کو توڑنا، تکلیف کو تسلیم کرنا، اور راستہ تلاش کرنا۔
کیونکہ مشکلات کو سہنے کے بجائے سمجھنا اور حل کرنا ہی حقیقی سکون کا راز ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top