میں نے جانا ہے کہاں سمجھ گیا ہے
راستہ قدموں کی زباں سمجھ گیا ہے
کون مخلص ہے، منافق ہے کون
تیرے در کا درباں سمجھ گیا ہے
جھک کر گزرنا لازم ہے یہاں
یہ کس کا ہے آستاں سمجھ گیا ہے
مل بیٹھنے کو صحن اب نہیں گوارا
باپ کا گرتا ہوا مکاں گیا ہے
زمیں ہی اٹھا سکتی ہے جبیں کا بوجھ
یہ بات نعیم آسماں سمجھ گیا ہے