میرا قاتل اک نئی ادا مانگ رہا تھا
مجھ سے مرا خوں بہا مانگ رہا تھا
امیرِ شہر کو کوئی تو خبر کرے
شہرِ خموشاں صدا مانگ رہا تھا
لباسِ شب میں لپٹ کر اک آذر
اپنے لئے ایک خدا مانگ رہا تھا
اک دیوانہ خاک اڑانے گیا تھا
وسعت دامنِ صحرا مانگ رہا تھا
لبِ ساحل اک ریت کا ذرہ نعیم
دریا سے قلزم کا پتہ مانگ رہا تھا