مرے اندر جو مجھ سے جدا سا ہے
وہ یوں لگتا ہے میرے خدا سا ہے
میرے ہر غم کو وہ بانٹ لیتا ہے
غموں میں جیسے کوئی دعا سا ہے
گماں جو ہو کہ میں ٹوٹ جاؤں گا
وہی پل مجھ میں ایک حوصلہ سا ہے
نظر میں اس کی جہاں بھی جاؤں میں
وہی منظر، وہی نقشِ پا سا ہے
میں بے یقینی میں جب بھی ڈوبوں گا
وہی تو ہاتھ میں اک دیا سا ہے
اگرچہ سایہ نہیں ہے پاس مرے
مگر وہ شخص بھی اک ہوا سا ہے
نعیم دل کی حقیقت کوئی نہ سمجھے گا
یہ راز تو بس ایک آئینہ سا ہے