میرے سب درد و الم بول پڑے ہیں
عرصے سے گونگے یہ غم بول پڑے ہیں
خاموشی کے پردے اب چاک ہوئے ہیں
لب سی کے بیٹھے تھے، صنم بول پڑے ہیں
زباں پہ جب جبر کی زنجیریں تھیں
لفظ چپ نہ رہ سکا، قلم بول پڑے ہیں
چھپائے جو تھے راز دل کی باتوں میں
ٹوٹا جو دل کا بھرم، بول پڑے ہیں
نعیم، اب دل کی زباں بند کہاں ہے
محبت میں چھپے سب کرم بول پڑے ہیں