میری صدا کے پتھر نے سناٹا توڑ ڈالا ہے

غزل

میری صدا کے پتھر نے سناٹا توڑ ڈالا ہے
خاموشی چیخ اٹھی ہے بھانڈا پھوڑ ڈالا ہے

ہم غریبوں کی جنت کو ناپاک کرنے کے لئے
لے پالک امیری نے یہ کیسا جوڑ ڈالا ہے

واقف نہیں تو تشنگی کی طاقت سے
ہونٹوں سے لگایا ہے پتھر نچوڑ ڈالا ہے

اوجھل ہو کے نظروں سے دل تک نہیں پہنچا
ہوس کی رہبری نے رُخ اُسکا موڑ ڈالا ہے

میری چیخوں کو فریاد سمجھنے والو سنو
خوش فہمی یہ کیسی ہے یہ کیسا شور ڈالا ہے

پر تول کے بیٹھا ہے اُڑنے کے لئے نعیم
ارادوں نے میرے کب سے پنجرہ توڑ ڈالا ہے

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top