میری ذات گردِ سفر ہو گئی
زندگی جنوں کی نظر ہو گئی
دشتِ زیست کی مسافت طویل تھی
بھلا ہو تنہائی ہم سفر ہو گئی
عنواں ہی ہو گیا ابواب پر محیط
کہانی نہایت ہی مختصر ہو گئی
زندگی بھر کا سرمایہ تھی ایک غزل
اُس کے ہونٹوں پہ آ کر نثر ہو گئی
جگنوؤں کی دشمنی میں نعیم
کتنی جلدی آج سحر ہو گئی