ملنے کو ترسنے والی باہیں مر گئیں
جسموں میں بھٹکتی روحیں مر گئیں
وصل کی راہیں بھی تھیں خوابوں کی طرح
ہجر میں پلتی سبھی آہیں مر گئیں
چاہتوں کا چراغ بجھتا گیا یوں
محفلوں میں گونجتی باتیں مر گئیں
چشمِ نم سے تکتے رہے ہم منزلوں کو
پاؤں چلتے رہے، راہیں مر گئیں
دل کی دیواروں پر نقش جو بولتے تھے
نعیم، وہ سب جیتی تصویریں مر گئیں
