(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
محبت کوئی شے نہیں جو ہاتھ سے چھوٹ جائے، کوئی مسافر نہیں جو ایک بار آ کر واپس نہ آئے، اور نہ ہی یہ کوئی لمحہ ہے جو وقت کی ریت پر پھسل کر فنا ہو جائے۔ محبت تو ایک توانائی ہے—ازل سے جاری، ابد تک قائم۔ اسے نہ کسی خانے میں قید کیا جا سکتا ہے، نہ کسی جسم کے ساتھ مشروط کیا جا سکتا ہے۔ جو لوگ محبت کو پانے یا کھو دینے کے گمان میں جیتے ہیں، وہ دراصل محبت کو چیزوں کی منطق میں تولنے کی غلطی کرتے ہیں۔
یہ توانائی کبھی لمس کی صورت دلوں میں دھڑکتی ہے، کبھی دعا بن کر آنکھوں سے بہتی ہے، کبھی خاموشی میں بولتی ہے اور کبھی جدائی میں پنپتی ہے۔ جب کوئی چلا جاتا ہے تو وہ محبت نہیں جاتی، وہ بس اپنی صورت بدل لیتی ہے۔ کبھی یادوں کی نرم چادر اوڑھ کر آتی ہے، کبھی خوابوں میں مسکرا کر گزر جاتی ہے، اور کبھی کسی اجنبی کی آواز میں وہی انسیت لے آتی ہے جسے ہم کھو چکے تھے۔
محبت جسم سے نہیں، روح سے جڑی ہے۔ اور روح نہ مرتی ہے، نہ بکھرتی۔ اسی لیے محبت فنا نہیں ہوتی، وہ صرف ارتقاء پذیر ہوتی ہے—ایک کیفیت سے دوسری کیفیت میں، ایک تعلق سے دوسرے تعلق میں، مگر اپنی اصل پاکیزگی کے ساتھ قائم رہتی ہے۔
محبت کو تلاش مت کرو، اسے روکنے کی کوشش مت کرو، بس اسے پہچانو… کہ جب یہ خاموشی میں بولے، تو سن سکو، جب یہ درد میں مسکرائے، تو سمجھ سکو، اور جب یہ جدائی میں بھی موجود ہو، تو محسوس کر سکو کہ محبت کبھی مرتی نہیں، بس روپ بدلتی ہے۔