(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
کائنات کی وسعتوں میں بکھرا ہر ذرّہ، ہر صدا، ہر خامشی ایک گہرے راز کی گواہی دیتی ہے—ایک ایسی حقیقت کی جو دیکھنے میں نہیں آتی، مگر محسوس کی جاتی ہے؛ جو زبان سے بیان نہیں ہو سکتی، مگر دل کے اندر جاگ اٹھتی ہے۔ یہی حقیقت محبت ہے۔ محبت، جو محض ایک جذبہ نہیں، بلکہ ایک کائناتی کوڈ ہے؛ جو ہر مخلوق کے رگ و پے میں رواں دواں ہے؛ جو ہر شے کو اُس کی اصل سے جوڑتی ہے؛ اور جو دراصل خدا کی تجلی ہے۔
انسانی زندگی ایک ایسا سفر ہے جس کی ہر منزل، ہر موڑ، ایک اندرونی تلاش کا نام ہے۔ یہ تلاش کسی مادی شے کی نہیں، بلکہ اس نور کی ہے جو ہمارے وجود کی گہرائیوں میں چھپا ہوا ہے۔ یہ نور محبت کا ہے، اور محبت وہ آئینہ ہے جس میں خدا کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
جیسے قطرہ سمندر کا پتہ دیتا ہے، ویسے ہی محبت خدا کی موجودگی کا اشارہ ہے۔
خدا نے جب روح کو “کُن” کا امر دے کر وجود بخشا، تو اس نے اس میں اپنی ایک چنگاری رکھ دی—محبت کی چنگاری۔ یہ وہی چنگاری ہے جو انسان کو بے چین رکھتی ہے، جس کی طلب میں وہ عمر گزار دیتا ہے۔ بعض لوگ اسے دنیا میں تلاش کرتے ہیں، بعض تعلقات میں، اور کچھ اپنے اندر۔ مگر سچ یہ ہے کہ محبت کو پانے کے لیے باہر نہیں، باطن کی گہرائی میں جھانکنا پڑتا ہے۔
محبت، ایک ایسی آگ ہے جو جلاتی نہیں، جِلاتی ہے۔
یہ وہ روشنی ہے جو ظلمتوں میں بھی راہ دکھاتی ہے، اور وہ خامشی ہے جو ہزاروں لفظوں سے زیادہ بیان کرتی ہے۔
محبت میں فنا وہی ہے جو بقا کی طرف لے جاتی ہے؛
یہی مقامِ وصال ہے، یہی عرفان کی ابتدا ہے۔
صوفیاء نے ہمیشہ محبت کو خدا تک پہنچنے کا سب سے معتبر وسیلہ مانا۔
ان کے نزدیک جب دل محبت سے لبریز ہوتا ہے، تو وہ آئینہ بن جاتا ہے، اور خدا اس آئینے میں جلوہ نما ہوتا ہے۔
جب رومی کہتے ہیں:
“عشق را خود خدا آفرید و خود نیز عاشق شد!”
تو وہ اس راز کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ محبت نہ صرف خدا کی صفات میں سے ہے، بلکہ اس کا جوہر بھی ہے۔
محبت کی ایک لطیف صفت یہ ہے کہ یہ ہمیں ہماری کمزوریوں سے آشنا کرتی ہے،
اور اسی آشنائی سے ایک ایسی عاجزی جنم لیتی ہے جو انسان کو خدا کے حضور جھکا دیتی ہے—
نہ خوف کی بنیاد پر، نہ طمع کے تحت،
بلکہ فقط محبت کے اشارے پر۔
محبت وہ راستہ ہے جس پر چل کر انسان اپنے نفسِ امّارہ سے نفسِ مطمئنہ تک کا سفر طے کرتا ہے۔
یہ راستہ آسان نہیں، مگر پرنور ہے۔
یہاں نہ منزل کی ہوس ہوتی ہے، نہ سفر کی تھکن؛
بس ایک جذب، ایک کیف، اور ایک جذبۂ قرب ہوتا ہے۔
یہی محبت جب دوسروں کی طرف بہتی ہے،
تو وہ رحم، ہمدردی، وفا، اور ایثار کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے؛
اور یہی محبت جب اندر کی طرف پلٹتی ہے،
تو وہ خود شناسی، روحانی بیداری اور حق کی تلاش بن جاتی ہے۔
خدا اور محبت—یہ دو نہیں، ایک ہی حقیقت کے دو نام ہیں۔
جو خدا کو صرف عقل سے ڈھونڈنا چاہے، وہ دلیل میں الجھ جائے گا؛
اور جو صرف عقیدے سے پہچاننا چاہے، وہ سطح پر رہ جائے گا۔
مگر جو دل میں محبت کی شمع جلائے،
وہ خدا کو ہر سانس، ہر دھڑکن، ہر لمس میں محسوس کرے گا۔
آخرکار، زندگی کا اصل راز یہ ہے کہ انسان جیتا رہے محبت کے ساتھ، اور محبت کرے خدا کے لیے۔
جب تک محبت ہے، تب تک روح زندہ ہے؛
اور جب محبت فنا ہو جائے، تو چاہے انسان زندہ بھی ہو، وہ دراصل مردہ ہے۔
محبت ایک سجدہ ہے جو لفظوں سے نہیں،
دل کی دھڑکنوں سے ادا ہوتا ہے—
اور یہی سجدہ انسان کو خدا سے ہمکلام کر دیتا ہے۔