(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
انسان کی پوری زندگی ایک ادھوری تکمیل کی داستان ہے۔ ہم ہر لمحہ کسی آنے والے پل کی آس میں جیتے ہیں، کسی اگلے دن کی اُمید میں آج کو قربان کر دیتے ہیں۔
ہم بچپن میں بڑے ہونے کی خوشی مؤخر کرتے ہیں، جوانی میں مقام حاصل کرنے کی، اور بڑھاپے میں سکون کی۔ مگر ہر منزل پر، خوشی اگلے پڑاؤ سے منسلک ہو جاتی ہے۔
یہ “مؤخر خوشیاں” زندگی کی سب سے لطیف دھوکہ دہی ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ادھوری ہیں، اس لیے غیر اہم ہیں، اور جو مکمل ہوں گی، وہی اصل ہوں گی۔ مگر یہ بات اکثر ہماری گرفت سے اس وقت نکل جاتی ہے جب “مکملات” کا وقت سرکتا چلا جاتا ہے — اور ہم خود بھی گزرتے لمحوں کی طرح فنا کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔
ہم خوشی کو ایک طے شدہ مقام سمجھتے ہیں — ایک نوکری، ایک گھر، ایک تعلق، ایک شناخت — لیکن وہ کبھی ایک حالیہ لمحے میں اپنا وجود نہیں رکھتی۔ وہ ہمیشہ اگلے دن کی بات ہوتی ہے۔
یوں زندگی ایک مسلسل التوا کی کیفیت میں گزر جاتی ہے، جیسے کوئی قاصد مسلسل خط لکھتا رہے، مگر روانگی کی مہر کبھی نہ لگے۔
یہ مؤخر خوشیاں دراصل زندگی کی ادھوری مکملات ہیں — جنہیں ہم مکمل سمجھنے کے انتظار میں مکمل لمحے کھو دیتے ہیں۔
ہم جس خواب کو حقیقت بنانے کی خواہش رکھتے ہیں، وہ جب حقیقت بن جائے، تو خوشی نہیں دیتا، بلکہ ایک نیا خواب جنم دیتا ہے۔ گویا زندگی خوشی کی تلاش میں سفر ہے، مگر خوشی ہمیشہ سفر کے آگے چلتی ہے — اور ہم کبھی نہیں پہنچ پاتے۔
اصل دانش تو شاید یہی ہے کہ انسان اپنے ادھورے لمحوں میں خوشی ڈھونڈ لے، کیوں کہ مکملات کا تصور بذاتِ خود ایک فلسفیانہ سراب ہے۔
کیا خوب کہا تھا کسی نے:
“خوشی کوئی مقام نہیں، یہ ایک طرزِ زیست ہے”۔
تو اے انسان!
اگر تُو ہر لمحے کو مؤخر کرتا رہا، تو زندگی تجھ سے وہی چھین لے گی جو وہ تیرے ہاتھوں میں رکھنا چاہتی تھی — خود زندگی۔