(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
انسان ازل سے محوِ سفر ہے۔ یہ سفر صرف فاصلے طے کرنے کا عمل نہیں بلکہ ایک باطنی جستجو، ایک روحانی بھٹکاؤ، اور ایک نامعلوم مرکز کی طرف مسلسل کھنچاؤ ہے۔ کبھی خوابوں کے جزیروں کی طرف، کبھی سوالوں کے جنگلوں کی طرف، اور کبھی سرابوں کے ریگزاروں میں ایک تشنہ لب کی طرح، جو پانی کی نہیں، معنی کی پیاس لیے پھرتا ہے۔
ہر قدم گویا ایک سوال ہے، اور ہر راستہ اس سوال کا ممکنہ جواب۔ مگر جب ہم اس سفر کی انتہا تک پہنچتے ہیں، تو حیرت سے یہ دیکھتے ہیں کہ ہم اسی دہلیز پر آن کھڑے ہوئے ہیں جہاں سے کبھی بےخبر، پُر تجسس آنکھوں کے ساتھ روانہ ہوئے تھے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ پہلی بار جب ہم چلے تھے تو آنکھوں میں خواب تھے، اور اب لوٹے ہیں تو ان خوابوں کی تعبیر کی راکھ ہاتھ میں ہے—مگر اسی راکھ میں کہیں روشنی کی چنگاری چھپی ہوتی ہے۔
منزل، جو ہمیں ہمیشہ “آگے” دکھائی دیتی ہے، درحقیقت ہمارے اندر ہوتی ہے۔ ہم اپنے ہی باطن کی پرتوں کو کھولنے نکلتے ہیں، اور ہر نیا منظر، ہر نیا راستہ، ہمارے اندر کسی چھپی ہوئی صدا کا انعکاس بن کر ابھرتا ہے۔ یہ سفر کسی مقام تک نہیں، بلکہ شعور کی ایک ارتقائی گردش ہے—ایسا دائرہ جس کی ہر گردش ہمیں اپنے مرکز کے ایک نئے زاویے سے آشنا کرتی ہے۔
یہی دائرہ وہ کمال رکھتا ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ ہم کبھی گم نہیں ہوتے—ہم بس خود کو ڈھونڈنے نکلتے ہیں۔ پہچان کا یہ دائرہ ہر مسافر کو واپس وہیں لے آتا ہے، مگر وہ جو واپس آتا ہے، وہ پہلا شخص نہیں ہوتا؛ اس کی آنکھوں میں سوالوں کے بجائے جوابوں کی نمی ہوتی ہے، اور دل میں ٹھہراؤ۔
جب ہم لوٹتے ہیں، تو مقام وہی ہوتا ہے، مگر نگاہ کا زاویہ بدل چکا ہوتا ہے۔ پہلی بار ہم نے منظر کو دیکھا تھا، اب منظر ہمیں دیکھتا ہے۔ پہلی بار ہم نے راہ چنی تھی، اب راہ ہمیں چن لیتی ہے۔
یہی لمحہ—جب مسافر اپنی گمشدہ پہچان کو پالے—درحقیقت اس سفر کی معراج ہے۔ اور تب احساس ہوتا ہے کہ راستے کی گرد، گمراہی کے صحرا، اور بھٹکنے کے لمحے—سب لازم تھے۔ وہ سب ہماری ذات کو گوندھنے کا عمل تھا۔ ہم مٹی سے بشر بنے، اور پھر بشر سے باخبر انسان۔
اور جب یہ شعور حاصل ہو جائے، تب سفر تمام نہیں ہوتا، بلکہ ایک نئی سطح پر، ایک نئی باطنی بلند پروازی کے ساتھ دوبارہ شروع ہوتا ہے۔ کیونکہ انسان کا وجود خود ایک کائنات ہے، اور ہر سفر اس کائنات کے کسی نئے سیارے کی طرف لے جاتا ہے۔