(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
محبت روشنی ہے، مگر جب خوف اس کے دروازے پر دستک دیتا ہے تو وہ کانپنے لگتی ہے۔ محبت جب تک بے خوف ہے، تب تک حقیقت ہے—مگر جہاں ہراس اس کے گرد دیواریں چننے لگے، وہاں وہ اپنی اصل کھو بیٹھتی ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب ایک انسان اپنے خدا سے ڈرنے لگتا ہے، اور اس ڈر کے بوجھ تلے اپنی ذات کو مصلحتوں کے حوالے کر دیتا ہے۔ مگر محبت اور خوف کبھی ہمزاد نہیں ہو سکتے، جیسے کہ دو متضاد رنگ ایک ہی کینوس پر اپنی اصل میں نہیں ٹھہر سکتے۔
خدا کو اگر خوف کے آئینے میں دیکھا جائے تو وہ محض ایک تصور رہ جاتا ہے، مگر جب اسے محبت کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ حقیقت بن کر ظاہر ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ خدا جسے محبت سمجھنے سے قاصر ہو، اور وہ عقیدہ جو انسان کے اندر خوف کے کانٹے بوئے، دونوں کا ایک ساتھ چلنا ممکن نہیں۔ اگر تمہارے خدا کے سایے میں تمہاری روح سکون نہیں پاتی، اگر تمہیں اس کے حضور اپنی ذات کے ٹوٹنے کا احساس ہوتا ہے، تو جان لو کہ تم نے خدا کی حقیقت کو غلط زاویے سے دیکھ رکھا ہے
اور پھر جب کوئی سالکِ راہ کہہ دے کہ نہ کوئی دعا اس پیاس کو بجھا سکتی ہے، نہ کوئی دوا اس درد کا علاج ہے، تو اسے ہنسی میں مت اڑا۔ زخم اگر روح پر لگے ہوں تو مرہم دنیاوی ہاتھوں سے نہیں لگ سکتا۔ یہ تو ایک ندا ہے جو باطن کے سب سے گہرے خلا سے بلند ہوتی ہے، اور اسے وہی سن سکتا ہے جو اپنے اندر جھانکنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔
محبت کو خوف کی زنجیروں سے آزاد کر، ورنہ تیرا خدا کتابوں کا ایک قیدی بن کر رہ جائے گا، اور جب خدا کتابوں میں مقید ہو جائے تو لوگ اسے اپنے مفاد کے مطابق بدل دیتے ہیں۔ جان لے کہ خدا اس دل میں اترتا ہے جو خوف کی دھند سے نکل کر عشق کی روشنی میں قدم رکھتا ہے۔ اور عشق وہی ہے جو بےخوف ہو، جو بےطلب ہو، جو صرف فنا میں بقا تلاش کرتا ہو۔