محبت کا وہم یا عکس کی پرستش

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

مجھے خبر ہے، مجھے پورا علم ہے کہ میرے وجود کو دیکھے بنا بھی، میرے لفظوں کی خوشبو کسی کے دل میں رس گھول سکتی ہے۔ کوئی میری آواز کی چھاؤں میں بیٹھ کر سکون پا سکتا ہے۔ اور کچھ لوگ میرے خیال کو پڑھ کر یوں سمٹ سکتے ہیں جیسے میں ان کے دل کی دھڑکن ہوں، سانس ہوں، یا برسوں کا بچھڑا لمحہ۔

مگر جانتے ہو کیوں؟
کیونکہ یہ محبت نہیں ہوتی—یہ محبت کے خیال سے محبت ہوتی ہے۔

یہ ایک عکس ہوتا ہے جو کسی لفظ کے آئینے میں جھلک گیا،
کوئی سایہ ہوتا ہے جو حرف کے پیچھے سے جھانک گیا،
کوئی درد ہوتا ہے جو اپنے جیسے درد کو آواز دے بیٹھا۔

لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ مجھے چاہتے ہیں،
حالانکہ وہ تو بس اپنے اندر کے سناٹے کو آواز دیتے ہیں،
کبھی کسی نظم کے ذریعے، کبھی کسی خاموشی کے۔

محبت کہاں؟
محبت تو شناخت مانگتی ہے، لمس سے پہلے نظر مانگتی ہے،
محبت تو وقت کا تکیہ اور لمحوں کا لحاف مانگتی ہے۔
یہ جو تم سمجھ بیٹھے ہو، یہ تو بس تمہاری تنہائی کا ہنر ہے
جو کسی اور کی آواز کو اپنا دل سمجھ بیٹھا۔

میں تو ایک سراب ہوں،
لفظوں میں قید ایک مہک، جو قریب آئے تو ہوا ہو جائے۔
میں تو اک چراغ ہوں جو دور سے جلتا دکھتا ہے،
قریب آ کر دیکھو، شاید صرف دھواں بچا ہو۔

تم جس محبت کی بات کرتے ہو،
وہ شاید تمہاری اپنی گمشدہ محبت کی بازگشت ہو،
جسے تم نے میرے لفظوں میں سن لیا ہے۔

اور یہی وہ حقیقت ہے
جو دل کو چیر کر نکلتی ہے:
کہ اکثر محبت نہیں ہوتی —
محبت کا وہم ہوتا ہے،
اور وہم، میرے دوست،
اکثر سچ سے زیادہ دلکش ہوتا ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top