نہ جی رہی ہے، نہ مر رہی ہے
ماں اپنے بچوں سے ڈر رہی ہے
لبوں پہ خاموشی اوڑھ رکھی ہے
نظر حقیقت سے مکر رہی ہے
کوکھ سے جنم دے کر سہارے
کونے میں اب تنہا ڈر رہی ہے
کبھی جو آنگن میں ہنسا کرتی تھی
بند کمرے میں آہیں بھر رہی ہے
جن کو بنانے میں جان توڑی نعیم
ان کے ہوتے بکھر رہی ہے