(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
کیا تم نے کبھی دریا کے اس پتھر کو دیکھا ہے جو صدیوں سے لہروں کے تھپیڑوں کا سامنا کر رہا ہے، مگر اپنی جگہ سے سرکنے کو تیار نہیں؟ وہ طوفان کی گرج سنتا ہے، پانی کی بے قراری دیکھتا ہے، مگر اپنے سکوت سے ان سب کو بے اثر کر دیتا ہے۔ کیونکہ وہ جانتا ہے کہ شور کرنے والے پانی کی چیخ و پکار اس کی مضبوطی کو متزلزل نہیں کر سکتی۔
انسان کی اصل طاقت بھی یہی ہوتی ہے—وہ بے خوفی جو ہر وار کو بے معنی کر دے، وہ وقار جو کسی بیرونی تسلط یا شے کا محتاج نہ ہو۔ یہ طاقت جسمانی قوت سے زیادہ ایک اندرونی کیفیت ہے، وہ سکون اور بے نیازی جو انسان کو بیرونی حالات کے اثر سے آزاد کر دیتی ہے۔
تم اس شخص کو کیسے زیر کر سکتے ہو جس کا وجود بیرونی دنیا کے دائرے سے ماورا ہو؟ جس کے لیے دولت، شہرت، یا طاقت نہ وقار کا ذریعہ ہو اور نہ زوال کا سبب۔ وہ شخص جو اپنی خوشی اور سکون کو دوسروں کے رویوں یا حالات کے ہاتھوں گروی نہ رکھے، وہ ناقابلِ شکست ہو جاتا ہے۔
دنیا ہمیشہ ان لوگوں کو گرانے کی کوشش کرتی ہے جن کے پاس کھونے کے لیے کچھ ہو—دولت، شہرت، اختیار یا حیثیت۔ لیکن وہ شخص جو اندرونی طور پر بے نیاز ہو جائے، جس کی اصل طاقت اس کی روحانی مضبوطی میں ہو، وہ ہر وار کو یوں سہہ لیتا ہے جیسے دریا کا پتھر بہتے پانی کو اپنی سطح پر کھیلنے دیتا ہے، مگر خود اپنی جگہ سے ہلتا تک نہیں۔
سچ یہی ہے: اگر تمہاری خوشی، تمہارا سکون، اور تمہاری عزت تمہاری اپنی گرفت میں ہے، تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں بے بس نہیں کر سکتی۔ لیکن اگر تمہاری مسکراہٹ کسی دوسرے کے رویے پر منحصر ہو، تو تم ہمیشہ دوسروں کے رحم و کرم پر رہو گے۔
حقیقی طاقت اُس بے نیازی میں پوشیدہ ہے جو تمہیں ہر خوف سے آزاد کر دے۔ جو گرنے سے نہ ڈرے، وہی سب سے بلند رہتا ہے۔ کیونکہ جس کے پاس کھونے کو کچھ نہ ہو، وہی دنیا کا سب سے مضبوط انسان ہے۔