(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
نصیب… ایک ایسا قافلہ ہے جو وقت کی ریت پر بغیر نقش چھوڑے گزرتا ہے۔ ہم سب اس کارواں کے مسافر ہیں، مگر یہ سفر نہ ہمارے نقشِ قدم پر موقوف ہے، نہ ارادوں کی زنجیر سے بندھا ہوا۔ یہ سفر خواب و خیال کی اُس شاہراہ پر طے ہوتا ہے جہاں ہر موڑ ایک نیا سوال بن کر ابھرتا ہے، اور ہر پڑاؤ تقدیر کے خاموش دستخط سے مزیّن ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ نصیب لکھا جاتا ہے، مگر کسی نے یہ نہیں بتایا کہ کون لکھتا ہے؟ قلم وقت کا ہے یا دعا کا؟ سیاہی صبر کی ہے یا آنسوؤں کی؟ ہم اپنے اختیار کے چراغ ہاتھ میں لیے، قسمت کے اندھیروں میں روشنی تلاش کرتے رہتے ہیں، مگر بعض منزلیں صرف انہی کو ملتی ہیں جنہوں نے درد کو زادِ راہ بنایا ہو۔
نصیب کا سفر کبھی ایک بند دروازہ ہوتا ہے، جس کی کنڈی دعا سے کھلتی ہے، اور کبھی ایک کھلا میدان، جہاں آزمائشوں کی دھوپ میں انسان کا سایہ بھی ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ جو چاہا، وہ نہ ملا، اور جو ملا، وہ دیر سے سمجھ میں آیا۔ وقت گزرتا ہے، شعور پکتا ہے، اور تب جا کے دل کی دھرتی پر ایک خیال اگتا ہے:
“نصیب وہ نہیں جو تم نے مانگا تھا، بلکہ وہ ہے جو تم نے تراشا، سنوارا اور جِیا۔”
اس سفر میں ہر انسان ایک کتاب کی مانند ہے—جس کا سرورق پہچان ہے، مگر اصل کہانی اندر چھپی ہوتی ہے۔ کبھی درد کے باب، کبھی شکر کے صفحے، کہیں خاموشیوں کی سطریں، اور کہیں امید کی روشنائی سے لکھی ہوئی دعائیں۔ اور شاید یہی “نصیب کا سفر” ہے: ایک ایسا راستہ جس پر نہ نقش رہتے ہیں، نہ نقشہ، مگر پھر بھی ہر دل اپنی راہ میں ایک روشنی ڈھونڈتا ہے۔
نصیب… گویا ایک خاموش لوحِ دل ہے، جس پر تقدیر کی انگلیاں ان کہے رازوں سے نقوش ابھارتی ہیں۔ یہ وہ آئینہ ہے جس میں کبھی امید کا چہرہ روشن دکھائی دیتا ہے، اور کبھی مایوسی کا دھندلا عکس۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی تدبیروں سے کائنات کے درخت کو ہلانے کی کوشش کرتا ہے، مگر پھل پھر بھی اُسی شاخ سے گرتا ہے جس پر پہلے سے وقت کی مہر لگی ہوتی ہے۔
نصیب ایک ایسی ہوا کی مانند ہے جو نہ دکھائی دیتی ہے، نہ قابو میں آتی ہے، مگر اس کی موجودگی ہر احساس میں رچی بسی ہوتی ہے۔ کبھی یہ ایک نرم نسیم بن کر زندگی کو سہلاتی ہے، اور کبھی ایک تند آندھی بن کر سب کچھ بکھیر دیتی ہے۔ مگر یہی ہوا ہماری روح کی کھڑکیوں کو جھنجھوڑ کر یاد دلاتی ہے کہ ہم محض راہی ہیں، اصل راہ بنانے والا کوئی اور ہے۔
انسان خواہشوں کی مٹی سے مجسمے بناتا ہے، مگر ان میں روح صرف وہی ڈال سکتا ہے جس کی مرضی ازل سے ابد تک محیط ہے۔ وہی خالق، وہی نصیب کا معمار۔ اور بعض اوقات، وہ ہماری ٹوٹی ہوئی دعاؤں کے ذروں سے ایسی تصویر تراشتا ہے جو ہماری سوچ سے کہیں بلند ہوتی ہے۔
نصیب کو اکثر قسمت کہا جاتا ہے، مگر درحقیقت یہ ایک خاموش مکالمہ ہے—انسان اور کائنات کے درمیان۔ ایک غیرمرئی معاہدہ، جس کی شقیں وقت کے پردوں میں لپٹی ہوتی ہیں۔ کچھ لوگ آنکھ کھولتے ہی سونے کے جھولے میں ہوتے ہیں، اور کچھ کو اندھیری کوٹھریوں میں آہستہ آہستہ اپنا راستہ خود بنانا پڑتا ہے۔ مگر نصیب کا کمال یہی ہے کہ وہ کبھی ظاہری سہولت سے ناپا نہیں جا سکتا۔
یہ کبھی ایک گمشدہ پرندہ ہوتا ہے جو عمر بھر پنجرے سے رہائی کا خواب دیکھتا ہے، اور کبھی ایک آزاد فاختہ جو بےخوف اڑان بھرتی ہے۔ کچھ لوگ اپنی دعاؤں سے نصیب کا رخ موڑ لیتے ہیں، اور کچھ کی خاموشی بھی عرش کو چھو لیتی ہے۔ کیونکہ نصیب محض حاصل کا نام نہیں، بلکہ اُس سفر کا ہے جس میں انسان بنتا، بکھرتا، اور سنورتا ہے۔
جب ہم خود کو شکست خوردہ محسوس کرتے ہیں، تب نصیب ہمیں کسی اور رنگ میں سنوارنے کی تیاری کر رہا ہوتا ہے۔ جیسے خزاں کا موسم درخت سے پتے گراتا ہے، تاکہ نئی کونپلوں کو جگہ ملے۔ اسی طرح، کبھی زخم ہی وہ راہ بن جاتے ہیں، جس پر چل کر انسان اپنے اصل کو پا لیتا ہے۔
اور پھر، کسی ایک لمحے، کسی گم سم ساعت میں، یہ راز منکشف ہوتا ہے کہ نصیب صرف وہی نہیں جو ملا یا چھن گیا، بلکہ وہ بھی ہے جو تمہیں تمہاری ذات تک لے آیا۔
کیونکہ “نصیب کا سفر”، دراصل انسان کی اپنی دریافت کا سفر ہے۔