(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
کہاں جاؤں، اے ربِ کائنات، کہ اب راستے ختم ہو چکے، قدم تھک چکے، آنکھیں بینائی کھو چکی ہیں؟ میں وہی ہوں جو بھٹک گیا تھا، جو ٹھوکر کھا کر سنبھلنے کے بجائے مزید گر گیا، جو اپنی ہی نادانیوں کی دھول میں ایسا گم ہوا کہ خود سے بھی ناواقف ہو گیا۔ میں نے ہر دروازہ کھٹکھٹایا، ہر در پر پناہ ڈھونڈی، مگر کہیں قرار نہ پایا۔
پروردگار! آؤ، کلیجے سے لگا لو مجھ کو، کہ میں بہت دور نکل آیا ہوں، بہت تھک چکا ہوں، بہت کھو چکا ہوں۔ میں نے اپنے دل کو دنیا کے سود و زیاں میں الجھا دیا، اپنے خواب بازار کی بھاگ دوڑ میں بیچ دیے، اپنی سادگی کو منافقت کے لباس میں چھپا لیا۔ میں نے روشنیوں کا پیچھا کیا، مگر جب پلٹ کر دیکھا تو اپنی ہی تاریکی میں کھڑا تھا۔
یہ دنیا تو حساب مانگتی ہے، ہر لفظ کا، ہر قدم کا، ہر غلطی کا۔ یہاں ہر زخم کا تاوان ہے، ہر خطا کی سزا ہے، ہر نادانی کا مواخذہ ہے۔ لیکن کیا تُو بھی حساب کرے گا؟ کیا تیری رحمت بھی تول کر بٹے گی؟ کیا تُو بھی مجھ سے سوال کرے گا کہ کہاں تھا، کیوں بھٹکا، کیوں لوٹنے میں دیر کر دی؟
نہیں، میرا رب تو ایسا نہیں! تُو تو وہ ہے جو سوال نہیں کرتا، جو پلٹنے والوں کو بانہوں میں بھر لیتا ہے، جو ندامت کی نمی کو رحمت کی بارش بنا دیتا ہے۔ تُو تو وہ ہے جو کہتا ہے:
“آ گئے ہو؟ بس، یہی کافی ہے!”
پروردگار! میں بھی کبھی معصوم تھا، کسی کھلے آسمان کے نیچے بے فکری سے دوڑا تھا، کسی شام کی ٹھنڈی ہوا میں اپنی خواہشیں بکھیر دی تھیں، کسی سحر کے رنگوں میں اپنے خواب گوندھ دیے تھے۔ مگر پھر راستے بدلتے گئے، آنکھوں کا نور دھندلا گیا، دل کی زمین بنجر ہو گئی، اور میں دنیا کی دھوپ میں ایسا جل گیا کہ اپنی پہچان ہی کھو بیٹھا۔
لیکن آج، اس تھکن بھرے سفر کے بعد، اس خاک آلود راستے پر چلتے چلتے، میں نے اپنے اندر ایک صدا سنی—وہی صدا جو ہمیشہ تھی، مگر میں نے سننے میں دیر کر دی۔ یہ صدا کسی مؤاخذے کی نہیں، کسی ملامت کی نہیں، یہ تو بس بلانے کی، سینے سے لگانے کی، پلٹ آنے کی صدا ہے۔
پروردگار! آؤ، کلیجے سے لگا لو مجھ کو، کہ میں بہت دنوں سے بھٹک رہا ہوں۔ جانے پھر کب کوئی مجھ سا ندامت کی چادر میں لپٹا گناہگار تیرے در پر آ کھڑا ہو۔ اگر تُو نے آج نہ تھاما، تو شاید میں خود کو تھامنے کی سکت کھو دوں۔ اگر تُو نے آج اپنی آغوش میں نہ لیا، تو پھر مجھے کون تھامے گا؟
یہ دنیا تو سبھی کا حساب کرتی ہے، تُو بس اپنی رحمت سے لپیٹ لینا، بس بانہیں کھول دینا، بس میرے تھکے قدموں کو ٹھکانہ دے دینا۔
کیونکہ اگر تُو نے بھی در بند کر لیا… تو پھر میں کہاں جاؤں گا؟