پیاس اور سراب کا ازلی کھیل

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

نسان کی فطرت عجیب ہے۔ وہ پیاسا ہوتا ہے، مگر دریا کا رخ نہیں کرتا۔ وہ پیاس بجھانے کے بجائے سراب کے تعاقب میں بھٹکتا ہے، ہر بار خود کو دھوکہ دیتا ہے، ہر بار ایک نئی امید کے ساتھ جلتی ریت پر دوڑتا ہے، اور ہر بار پیاس کو اور شدید کر لیتا ہے۔

یہ محض ایک استعارہ نہیں، بلکہ زندگی کی وہ تلخ حقیقت ہے جو ہر عارف، ہر مفکر، اور ہر صوفی نے محسوس کی ہے۔ دنیا میں بے شمار دریا بہتے ہیں— علم کے، محبت کے، حقیقت کے— مگر ہم نے ہمیشہ سرابوں کو چُنا۔ ہم نے ہمیشہ ان راستوں کا انتخاب کیا جہاں کچھ نہیں تھا، سوائے دھوکے کے، سوائے بے قراری کے۔
یہی وجہ ہے کہ دکھ ہم سے جدا نہیں ہوتے، بلکہ ہمارے ہمسفر بن جاتے ہیں۔ ہم ان سے نفرت بھی کرتے ہیں، مگر انہیں چھوڑنے پر آمادہ بھی نہیں ہوتے۔ ہمارے دلوں کو سکون کی تلاش ہوتی ہے، مگر ہم ہمیشہ بے قراری کے راستے اپناتے ہیں۔

یہ کیسا کھیل ہے؟ یہ کیسی پیاس ہے جو بجھنے کے بجائے بڑھتی جاتی ہے؟ شاید اصل مسئلہ ہماری طلب میں ہے، نہ کہ ان چیزوں میں جنہیں ہم طلب کرتے ہیں۔ شاید ہمیں سکون کی تلاش نہیں، بلکہ ایک نہ ختم ہونے والی بے چینی کی عادت ہو چکی ہے۔

تصوف کے مسافر جانتے ہیں کہ اصل پیاس پانی سے نہیں بجھتی، بلکہ حقیقت کی معرفت سے بجھتی ہے۔ جو دریا ہمارے سامنے بہہ رہے ہیں، وہ محض پانی کے نہیں، وہ دریا اصل میں معرفت، شعور اور حقیقت کے ہیں۔ مگر ہم ان کی طرف جانے کے بجائے ریت کے ٹیلوں کی طرف بھاگتے ہیں۔ اور جب ہر بار پیاس دوگنی ہو جاتی ہے، تو پھر حیران ہو کر آسمان کی طرف دیکھتے ہیں کہ یہ تشنگی کیوں ختم نہیں ہوتی؟

یہ دنیا ایک کھیل ہے— پیاس اور سراب کا۔ کچھ لوگ دریا کو پہچان لیتے ہیں اور اپنی پیاس بجھا لیتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ ساری عمر ریت پر چلتے رہتے ہیں، اپنی پیاس کے ساتھ۔ جو دریا تک پہنچ جائے، وہ کامیاب ہے۔ جو سراب کے پیچھے بھاگتا رہے، وہ زندگی بھر پیاسا ہی رہتا ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top