پیاس کے پار کا سراب

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

دھوپ کے سائے میں کھڑا ایک مسافر، جس کی پیاس سمندر سے گہری اور صحرا سے زیادہ وسیع ہے، ایک ایسی سرزمین کی تلاش میں ہے جس کا کوئی نقشہ نہیں، مگر ہر راستہ اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ہر قدم ایک نئی زمین کا وعدہ کرتا ہے، مگر جیسے ہی پاؤں آگے بڑھتا ہے، زمین ریت میں ڈھل کر سراب بن جاتی ہے۔

یہ جو سفر ہے، یہ جو تلاش ہے، یہی زندگی کی اصل کہانی ہے۔ ہم سب اس دنیا کے مسافر ہیں، سیراب ہونے کی خواہش میں رواں دواں، مگر ہر گھونٹ کے بعد مزید پیاسے۔

یہ جو حقیقت ہے، جو ہمارے قریب محسوس ہوتی ہے، وہ شاید ایک دھوکہ ہے۔ جیسے چاندنی کا لمس جو ٹھنڈک کا وہم دیتا ہے، مگر چھونے پر کچھ بھی نہیں رہتا۔ ہم سوچتے ہیں کہ ہم نے حقیقت پا لی، مگر جیسے ہی اسے مٹھی میں قید کرنا چاہتے ہیں، وہ ریت کی مانند انگلیوں سے سرک جاتی ہے۔ شاید حقیقت کوئی منزل نہیں، بلکہ ایک سراب ہے جو ہمیں ہمیشہ چلتے رہنے پر مجبور رکھتا ہے۔

یہ جو قربت ہے، جو لمس کی حدوں میں مقید دکھائی دیتی ہے، وہ بھی شاید فریب ہے۔ جیسے سرِ شام دریچوں میں جھانکتی دھوپ، جو چھونے کی کوشش میں معدوم ہو جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نے فاصلے مٹا دیے، مگر اصل میں ہم فاصلے کا ایک اور زاویہ دریافت کر لیتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہر مکمل لمحہ اپنے اندر ایک خلا رکھتا ہے، ہر جیت میں ہار کی سرگوشی چھپی ہوتی ہے، اور ہر محبت کے اندر جدائی کے امکان کا زہر گھلا ہوتا ہے۔

ہم گردش میں ہیں، مگر اسی گردش کو سکون کا نام دے دیا گیا ہے۔ ہم سوچتے ہیں کہ وقت کو قید کر سکتے ہیں، مگر وقت ہمیں قید کر لیتا ہے۔ جو ہاتھ میں ہے، وہ ہمارا نہیں، اور جو ہماری طرف بڑھ رہا ہے، وہ کبھی مکمل نہیں پہنچے گا۔

کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی راہ کے اختتام پر کوئی سرا ضرور ہو گا، کہ ہر سوال کا کوئی نہ کوئی جواب ضرور ہو گا، کہ کوئی نہ کوئی حقیقت ہمیں اپنی گرفت میں لینے کے لیے بے تاب ہے۔ مگر جیسے ہی ہم آگے بڑھتے ہیں، جواب مزید سوالوں میں بٹ جاتے ہیں، حقیقت دھند میں لپٹ کر اور بھی پیچیدہ ہو جاتی ہے۔ شاید اصل آزمائش یہی ہے کہ ہم سب ایک دائرے میں قید ہیں، ایک نہ ختم ہونے والی تلاش میں، ایک ایسے سراب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں جس کی حقیقت بس اتنی ہے کہ وہ ہمیں بھاگتے رہنے پر مجبور رکھے۔

اگر پیاس کی کوئی حد نہیں، تو سیرابی کا خواب کیوں دکھایا گیا ہے؟ اگر حقیقت ہاتھ نہیں آتی، تو یہ تلاش کیوں نہیں تھمتی؟ شاید یہی پردہ ہے، یہی راز، یہی وہ کشش ہے جو ہمیں زندہ رکھتی ہے—ہمیں بار بار پیاس میں ڈال کر، سراب کے پیچھے دوڑانے والی ازلی کشش، جو حقیقت میں ہماری سانسوں کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top