پیاس کو جام کر کے دیکھ لیا
خود کو گمنام کر کے دیکھ لیا
اپنے کردار پر ہی حرف آیا
اس کو بدنام کر کے دیکھ لیا
یہ مثل طفلِ ناداں ہی رہا دل
اس کو سرّ بام کر کے دیکھ لیا
دلِ مضطر کو چین کب ہے نصیب
اس کے بھی نام کر کے دیکھ لیا
ہاتھ کچھ بھی نہیں لگا ہے نعیم
صبح کو شام کر کے دیکھ لیا