قہر اُگتا ہے اس لئے کہ عذاب برستا ہے
شبنم برستی تھی جہاں تیزاب برستا ہے
برف کے بُت جہاں میں نے تراشے ہیں
دھوپ کی نگری ہے آفتاب برستا ہے
خشک سالی کی دعا پھر مانگ رہی ہیں
جن آنکھوں سے سیلاب برستا ہے
میں نے دیکھا ہے اندھیری راتوں میں
اُس کے آنگن میں ماہتاب برستا ہے
ہے اُس کی دسترس میں وقت کی اکائی
نعیم اُس پہ لمحہء نایاب برستا ہے