رات ،غم اور ستاروں کے سوا کیا ہے
اپنے پاس ان سہاروں کے سوا کیا ہے
تیرے دامن میں اے تیرہ شبی آخر
ان غمِ دل کے ماروں کے سوا کیا ہے
رنگ و بو اڑ گئی میرے گلستاں سے
بھہکی بھہکی بہاروں کے سوا کیا ہے
صحنِ چمن میں جلتے ہوئے پھولوں
اور شعلہ عذاروں کے سوا کیا ہے
سوچا ہے یہ کبھی تم نے نعیم اللہ
دنیا میں اشتہاروں کے سوا کیا ہے
