(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
انسان کی روح کا بھی ایک موسم ہوتا ہے —
مگر یہ موسم کسی کلینڈر میں درج نہیں ہوتا،
نہ اس کے دن بدلتے ہیں،
نہ اس کی راتیں چھوٹتی ہیں۔
یہ وہ موسم ہے
جو کبھی بہار کی طرح روح کو مہکا دیتا ہے،
اور کبھی خزاں بن کر اندر سے پتے جھاڑ دیتا ہے — پتے، جو یادوں کے، جذبوں کے، یا خوابوں کے ہوں۔
یہ روح کا موسم
کبھی اک صبح کے دھندلکے میں چھپا ہوتا ہے،
جہاں پرندے تو چہچہا رہے ہوتے ہیں
مگر اندر اک عجیب سی خاموشی بسیرا کیے ہوئے ہوتی ہے —
گویا روح نے دنیا کو دیکھنے کی آنکھیں بند کر دی ہوں،
اور اندر کا آسمان اَبر آلود ہو۔
کبھی ایسا بھی ہوتا ہے
کہ باہر سردیوں کی بارش ہو رہی ہوتی ہے،
مگر روح کے اندر
کسی پہلی محبت کی گرمی لو دیتی ہے —
ایسا موسم جو صرف محسوس کیا جا سکتا ہے،
کہا نہیں جا سکتا۔
روح کے موسم کا کوئی آغاز نہیں،
کوئی انتہا نہیں۔
یہ اُن لمحوں میں کھلتا ہے
جب انسان خود کو اپنے وجود سے جدا پاتا ہے —
جیسے جسم یہاں ہو، اور روح…
کسی پرانی لوری کے سنگ کہیں دور بہک گئی ہو۔
یہ موسم کبھی خواب کی صورت اترتا ہے،
اور کبھی حقیقت کو ہی خواب بنا دیتا ہے۔
یہی تو وہ لمحہ ہوتا ہے
جب انسان خود کو آئینے میں نہیں،
اپنی سوچ کے سائے میں دیکھتا ہے۔
روح کا یہ موسم
نہ گرمی ہے، نہ سردی،
یہ احساسات کی نمی ہے —
جس میں کبھی آنکھیں بھیگتی ہیں بغیر بارش کے،
اور کبھی دل جلتا ہے
بغیر شعلوں کے۔
یہ وہ موسم ہے
جس میں انسان
نہ ہنستا ہے، نہ روتا —
بس محسوس کرتا ہے…
جیسے وہ کسی اور ہی وقت میں سانس لے رہا ہو،
کسی ایسے لمحے میں
جو وقت کی قید سے آزاد ہو چکا ہو۔
یہ موسم
کبھی بچھڑنے کے بعد آتا ہے،
کبھی ملنے سے پہلے،
اور کبھی…
کبھی بس یونہی —
کسی نامعلوم اداسی یا بےنام خوشی کی صورت۔
اور شاید،
اسی روحانی موسم میں
انسان کو سب سے زیادہ
اپنے خالق کی آہٹ سنائی دیتی ہے —
اک ایسی صدا
جو ہر موسم کی حدود سے ماورا ہے۔