رسوائی کے میری ہوئے اسباب بہت ہیں
تنقید کو اپنے مرے احباب بہت ہیں
مجھ کو جو وہ دیکھیں تو ہے پیمانہ کوئی اور
پھر جو بھی ہیں بخشے گئے القاب بہت ہیں
سُنتے ہیں غزل اس کو وہ سمجھیں یا نہ سمجھیں
پر میرے قبیلے میں یہ آداب بہت ہیں
میں نے جسے چاہا ہے امامت اسے بخشی
مسجد مرے دل کی ہے تو محراب بہت ہیں
لگتا ہے کہ پوری نہ یہ ہو پائے کبھی بھی
خود بیتی نعیم اپنی ہے ابواب بہت ہیں