روٹھ کر جانے کو تیار کھڑی ہے
تیری یاد پھر آج بہت دیر لڑی ہے
خوش تھا کہ میرے ہاتھ کھلے ہیں
بھول گیا کہ زنجیر پڑی ہے
تجھے ماننا پڑے گا تقاضہ ہے ادب کا
میری محبت کی عمر تیری نفرت سے بڑی ہے
کھیلوں بھی ہاروں بھی منظور ہے مجھ کو
یہ الگ بات کہ شرط کڑی ہے
خود آ کے خودکشی کا مشورہ دینے والے
تجھے ہی سوچ رہا تھا تیری عمر بڑی ہے
میرے ورثا بخش دیں خون بہا بھی
آخری ہچکی نعیم عجب ضد پہ اڑی ہے