سبھی در و دیوار بولتے ہیں

غزل

سبھی در و دیوار بولتے ہیں
مرے اندر مرے یار بولتے ہیں

لوگ جو جی میں آئے کہتے پھریں
دوستوں کے اعتبار بولتے ہیں

یادیں دل کی گلیوں میں جاگتی ہیں
میری تنہائی کے بازار بولتے ہیں

ڈھونڈ لیں گے مجھے ڈھونڈنے والے
چپ رہ کر بھی مرے کردار بولتے ہیں

حکم ہوا ہے کھینچ لو زباں ان کی
نعیم جیسے جو دو چار بولتے ہیں

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top