سبز زخموں کی رُت

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

وہ شخص موسموں کا پابند نہیں۔ وہ بہار میں خزاں کا پیام لاتا ہے، اور خزاں میں وہ زخم بو دیتا ہے جو اُگتے بھی ہیں، اور رستے بھی۔

عام لوگ زخم دیتے ہیں تو وہ بوسیدہ ہوتے ہیں—مرجھائے، پرانے، وقت کی دھول میں گم۔ مگر اُس کے زخم عجیب ہیں۔ وہ ہرے ہیں، تازہ، جیسے کسی نئی شاخ پر پھوٹتی کونپل۔ ان میں ایک نمو ہے، ایک زندگی، جو لمحہ لمحہ جلاتی ہے۔

تم کہہ سکتے ہو کہ یہ کیسا جُدائی کا موسم ہے جہاں درد بھی شاداب ہے، اور اذیت بھی سبزہ پوش؟ مگر یہی تو اُس شخص کی شناخت ہے—وہ جدائی میں بھی وصل کی دھیمی تپش چھپا دیتا ہے، اور زخم میں بھی چاہت کی نمی۔

شاید وہ کوئی عام انسان نہیں، کوئی تمثال ہے، کوئی تمثیل—جو دل کو خزاں میں ڈال کر بھی روح کو موسمِ گل کی گرفت میں رکھتا ہے۔
وہ جب جاتا ہے، تو خود کو لے کر نہیں جاتا—بلکہ اپنے بعد وہ ایک پوری کائنات چھوڑ جاتا ہے، ایسی کائنات جہاں ہر دکھ، محبت کے کسی نئے رنگ میں ڈھلتا ہے۔

اُس کا دیا ہوا ہر زخم محض درد نہیں، ایک معنی ہے، ایک استعارہ—جیسے کسی شاعر کے کلام میں رکھی ہوئی چپ، یا کسی عاشق کی آہ میں چھپی ہوئی دعا۔

اُس شخص میں واقعی کچھ الگ بات ہے۔ ورنہ خزاں میں کون زخم کو ہرا کرتا ہے؟ کون جدائی کو امید کی طرح سینچتا ہے؟ اور کون دل کے ویرانے میں سبز آنکھوں والی یادیں بو دیتا ہے؟

وہ شاید فقط “شخص” نہیں—وہ ایک موسم ہے، جو کسی قاعدے، کسی تقویم سے آزاد ہے۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top