سفر یوں بھی طویل کر لیں گے

غزل

سفر یوں بھی طویل کر لیں گے
تجھے اے تشنگی سبیل کر لیں گے

پلکوں پہ کنول کھلنے تو دو
ان آنکھوں کو جھیل کر لیں گے

نگاہوں میں اثبات کی جنبش تو ہو
کچھ دے دلا کے اپنا قبیل کر لیں گے

نہ سہی مریض وہ حاذق ہی بنے
ہم مسیحا خود کو علیل کر لیں گے

پرتوِ خور مہرباں تو ہو نعیم
وجودِ شبنم کو اپنی دلیل کر لیں گے

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top