(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
سجدہ محض عبادت کا ایک رُکن نہیں، بلکہ یہ عبد اور معبود کے درمیان قائم ہونے والے تعلق کی بلند ترین شکل ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بندہ اپنی تمام ظاہری و باطنی حیثیتوں سے خالی ہو کر محض رب کے حضور پیش ہوتا ہے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم نے اس مقامِ فنا کو بھی خواہشات کی بھٹی میں ڈال کر راکھ کر دیا۔
ہم سجدے میں جھکتے تو ہیں، مگر مقصد قربت نہیں، بلکہ مراد ہے۔ ہماری جبین خاک پر ہے، مگر دل دنیا کے فریبوں میں الجھا ہے۔ ہم اپنے دکھوں، محرومیوں اور تمناؤں کی طومار لے کر آتے ہیں، اور بارگاہِ الٰہی کو بازار سمجھ کر “دے دو، دے دو” کی صدائیں بلند کرتے ہیں۔ ہم نے عبادت کو وصال کا ذریعہ بنانے کے بجائے، نفع و نقصان کی تجارت میں بدل ڈالا ہے۔
عارفوں کے مکتبہ فکر میں یہ اصول مسلم ہے کہ عبادت، اگر جزا یا اجر کے لالچ سے کی جائے، تو وہ سودا ہے؛ اگر خوفِ عذاب سے ہو، تو وہ حفاظت ہے؛ اور اگر محض محبوب کی رضا کے لیے ہو، تو وہی عشق ہے، وہی عبادتِ حقیقی ہے۔
کبھی کسی نے سوچا کہ سجدے میں جھکنا، اصل میں خود کو مٹانا ہے؟
یہ ایک عاشق کی طرح سر رکھ دینا ہے، کہ “بس تُو ہے، میں کچھ نہیں۔”
ہم نے اسے بھی خودی کا ہتھیار بنا لیا۔ “میری صحت، میری اولاد، میرا رزق، میری کامیابی”—سب کچھ “میرا” ہے، “تیرا” کچھ بھی نہیں۔
ہم اللہ کو عطا کرنے والا نہیں، صرف خواہش پوری کرنے والا جانتے ہیں۔
یہ تعلق نہیں، یہ مانگنے کی مشین ہے۔
سجدے کو غور سے دیکھو—یہ صرف ظاہری جھکاؤ نہیں، یہ دل کی خاکساری، روح کی عاجزی، اور نفس کی موت ہے۔
یہ مقامِ بے نیازی ہے جہاں بندہ، رب سے کچھ مانگنے نہیں، صرف رب کو پانے آتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ:
کیا ہمارا سجدہ اللہ سے محبت کا اعلان ہے؟
یا بس خواہشوں کا ہنگامہ؟
رابعہ بصریؒ کی وہ مشہور دعا یاد آتی ہے،
“یا اللہ! اگر میں تیری عبادت جنت کے لالچ میں کرتی ہوں، تو مجھے اس سے محروم رکھ،
اگر جہنم کے خوف سے کرتی ہوں، تو مجھے اس میں ڈال دے،
اور اگر محض تیری رضا کے لیے کرتی ہوں، تو مجھے اپنے دیدار سے محروم نہ کرنا۔”
یہ ہے سجدے کی اصل روح—خالص، بےلوث، فنا فی اللہ۔
ہمارے سجدوں میں آج روح نہیں، رسم رہ گئی ہے۔
ہم دل کو فرشِ راہ بنانے کے بجائے، پیشانی کو زمین سے لگا کر سمجھتے ہیں کہ سب کچھ ہو گیا۔
سجدہ وہ مکالمہ ہے جہاں الفاظ ضرورت نہیں رکھتے، یہ وہ لمحہ ہے جہاں آنکھیں بند ہوتی ہیں، مگر روح بیدار ہوتی ہے۔
یہ وہ در ہے جہاں “میں” ختم ہو جاتی ہے اور “وہ” شروع ہوتا ہے۔
ہمیں اپنے سجدوں کا محاسبہ کرنا ہوگا۔
کیا ہم سجدہ کر رہے ہیں، یا سودا؟
کیا ہم اللہ سے محبت کے جذبے میں جھک رہے ہیں، یا دنیا کے حصول کے لیے؟
کیا ہم رب کو پانے آئے ہیں، یا اپنی خواہشوں کو پورا کرانے؟
یاد رکھو،
جس دن سجدے میں کچھ مانگنا بھول گئے، اُسی دن رب مل جائے گا۔
کیونکہ سجدہ جب “تعلق” بن جائے، تو مرادیں خودبخود مل جاتی ہیں۔
اور جب تک سجدہ “تجارت” رہے گا، دل خالی، ہاتھ خالی، روح پیاسی رہے گی۔