صحرا میں دریا گنوا بیٹھا ہوں
ان دیکھے خواب میں الجھا بیٹھا ہوں
کس موڑ پہ لے آئی شوقِ تنہائی
چپ کے شور میں سہما بیٹھا ہوں
دھوپ میں ہم راہ رہا جو سایہ
چھاؤں میں اُسے بھی بُھلا بیٹھا ہوں
عشق کی ان کہی کہانی میں
خود کو فسانہ بنا بیٹھا ہوں
میں تو خوشی کے آنسو بھی، نعیم
غم کی موجوں میں بہا بیٹھا ہوں