سب جاہ و حشم تجھ پہ نثار کروں
تیرے عشق میں خود کو خوار کروں
جی چاہتا ہے بدگمانیوں کے موسم میں
تیرے یقین سے گزروں تیرا اعتبار کروں
کشتیاں جلا دی ہیں پار اتر کر جس نے
خدا کی قسم لوٹ آئے اگر میں انتظار کروں
کئی بار عقل نے فتویٰ یہ دیا ہے
تیری یاد کے سارے بت مسمار کروں
یقیں کا سوت لئے وہ خریدار تو بنے
میں بن کے یوسف خود کو سرّ بازار کروں
دیئے جلانے کا نعیم وہ ہنر تو سیکھے
ذرّہ ء جاں دفن کروں ہر سو مزار کروں