تمام عمر مجھے در بدر کرتا رہا

غزل

تمام عمر مجھے در بدر کرتا رہا
میری باتیں ادھر اُدھر کرتا رہا

بھرتا رہا سینے میں وہ کینہ اپنے
میں یہ سمجھا درگزر کرتا رہا

باہر نکلنے کا رستہ نہ ملا عمر بھر
میں اپنے اندر ہی اندر سفر کرتا رہا

وہ عمرِ جاوداں کی دعا دیتا رہا
میں یہ سلسلہ مختصر کرتا رہا

جس اپاہج کو اپنا جسم بخشا نعیم
وہ مجھے بے ہنر کرتا رہا

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top