طعن و طنز کے آوازے بھگت رہا ہوں
تیرے پیار کے خمیازے بھگت رہا ہوں
ایک تیرے در سے اُٹھ کر آنے کے بعد
جانے کتنے دروازے بھگت رہا ہوں
چاہت کے سبھی خواب بکھر گئے ہیں
اب ان خوابوں کے شیرازے بھگت رہا ہوں
میرے حال پہ ہنستے ہیں زمانے والے
تیرے عشق کے اندازے بھگت رہا ہوں
محفل میں تیری بات جو کہہ دی تھی میں نے
اب اُس بات کے سنازے بھگت رہا ہوں
آسان نہیں دل کا یہ سود و زیاں
دِل کے اپنے ہی نازے بھگت رہا ہوں
تنہائی میں اُترا ہے ترا غم ایسا نعیم
اب آنسوؤں کے دریا سے بھگت رہا ہوں