تنہا رہ گیا تعلق نبھاتے نبھاتے
بے نام ہو گیا نام بناتے بناتے
خالقِ وقت نے رکھا لمحہ
گنوا دیا ہاتھ اُٹھاتے اُٹھاتے
تقدیر کا کھیل تھا یا میری خطا
سب خواب بکھر گئے، خواب بناتے بناتے
دھوپ کی نگری ہے سنو جنوں والو
تھک جاو گے برف کے بت بناتے بناتے
غالب و میر کے پرکیف تغزل کی قسم
رو پڑو گے نعیم غزل سناتے سناتے