تنہائی کا تمدن

(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)

ہم نے ہمیشہ تنہائی کو ایک خلا سمجھا — ایک کمی، ایک محرومی۔ مگر تنہائی ایک الگ تمدن ہے، ایک ایسی تہذیب جس کا ہر فرد صرف ایک ہوتا ہے، اور وہ خود۔
یہ وہ دنیا ہے جہاں نہ دستورِ ہجوم چلتا ہے، نہ شورِ دنیا کا سکہ۔ یہاں ہر قدم سوچ کے فرش پر پڑتا ہے، ہر سانس احساس کی دہلیز سے گزرتی ہے، اور ہر خاموشی، ایک چیخ کی طرح سنائی دیتی ہے۔
اکثر ہم تنہا نہیں ہوتے، مگر پھر بھی خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہمارے گرد کوئی نہیں، بلکہ یہ ہے کہ ہم خود سے کٹے ہوتے ہیں۔
یہی تنہائی کا تمدن ہے — ایک ایسا اندرونی نظام، جو تب جنم لیتا ہے جب باہر کی دنیا بےمعنی ہو جائے اور اندر کی دنیا بیدار ہونے لگے۔
یہ تمدن خاموشی سے بنتا ہے، لفظوں کے بغیر۔
یہاں خوابوں کا بازار ہے، خیالوں کی مسجد، خوف کی گلیاں، اور امیدوں کا صحرا۔
یہ تمدن رشتوں کے شور سے دور، ایک گہری خود آگاہی کی کوکھ میں پلتا ہے، جہاں انسان خود سے پوچھتا ہے:
“میں کون ہوں؟”
اور پہلی بار، جواب کا انتظار کرتا ہے۔
دنیا کے تمدن میں ہم پہچان بناتے ہیں،
لیکن تنہائی کے تمدن میں، ہم اپنے آپ کو پہچانتے ہیں۔
یہ وہ سرزمین ہے جہاں نہ جھوٹ ٹکتا ہے، نہ بہانہ۔ یہاں صرف سچ بولتا ہے — اور وہ بھی چپ کی زبان میں۔
یہ تمدن کسی دستور یا مذہب سے بندھا ہوا نہیں،
یہ روح کی مٹی سے اگتا ہے،
اور آنکھوں کی نمی سے سیراب ہوتا ہے۔
جو اس تمدن میں داخل ہو جائے، وہ جان لیتا ہے کہ تنہائی سزا نہیں، بلکہ سفر ہے —
ذات سے ذات تک،
جہاں کوئی اور نہیں،
صرف تو،
اور تیری اصل۔

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top