(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
تقسیم، صرف دو ملکوں کی جغرافیائی حد بندی کا نام نہیں تھا، بلکہ یہ لاکھوں خوابوں کی کرچیاں، بکھرے ہوئے خاندانوں کی چیخیں، اور ان گنت قربانیوں کی ایک الم ناک داستان تھی۔ یہ تاریخ کا وہ باب تھا جس میں محبت اور نفرت، امید اور مایوسی، فتح اور شکست سب ایک ساتھ سمٹ آئے تھے۔
قیامِ پاکستان اور بھارت کی آزادی کا خواب دیکھنے والوں نے شاید یہ نہ سوچا تھا کہ یہ خواب تعبیر کی دہلیز پر پہنچ کر لہو میں نہا جائے گا۔ گھر، محلے، بستیاں، اور شہر—سب کے سب خون کے دریا میں بدل گئے۔ راتوں رات صدیوں کے ہمسائے اجنبی ہو گئے، دوست دشمن بن گئے، اور رشتے نفرت کی بھینٹ چڑھ گئے۔
کتنی ماؤں نے اپنے بچے کھو دیے، کتنے باپ اپنے جوان بیٹوں کی لاشیں دیکھنے سے پہلے خود مٹی اوڑھ چکے تھے۔ کتنی بہنوں کے بھائی پیچھے رہ گئے، کتنی بیٹیوں کے سروں سے چادر کھینچ لی گئی۔ دریا، میدان، اور سڑکیں لاشوں سے اٹ گئیں، اور دھرتی کا سینہ خون سے سرخ ہو گیا۔
ہجرت کا لفظ بہت مختصر ہے، لیکن اس کی وسعت میں وہ تمام چیخیں، وہ تمام آہیں، وہ تمام سسکیاں قید ہیں جو لاکھوں لوگوں نے اپنے دل میں دبائے رکھیں۔ ایک لمحے میں سب کچھ پیچھے رہ گیا—گھر، در و دیوار، صحن میں لگا پرانا درخت، گلی کا وہ موڑ جہاں دوستوں کے ساتھ کھیلا کرتے تھے، وہ مسجد جہاں اذان کی آواز سننے کے عادی تھے، وہ مندر جہاں پوجا کی گھنٹیاں بجتی تھیں۔
اس تقسیم نے نہ صرف زمین کو، بلکہ دلوں کو بھی تقسیم کر دیا۔ آج بھی وہ زخم تازہ ہیں، وہ درد باقی ہے۔ وہ بوڑھا شخص جو لاہور کی گلیوں کو یاد کر کے دہلی میں آنسو بہاتا ہے، وہ خاتون جو امرتسر کے اپنے آنگن کو یاد کر کے کراچی میں سسکیاں لیتی ہے—یہ سب تاریخ کے خاموش گواہ ہیں۔
سالوں گزر گئے، نسلیں بدل گئیں، لیکن 1947 کا دکھ آج بھی زندہ ہے۔ وہ دیواریں جو ایک ہی چھت کے نیچے تھیں، وہ محبتیں جو صدیوں پرانی تھیں، وہ رشتے جو زمانوں سے قائم تھے، سب تقسیم ہو گئے۔ شاید وقت مرہم رکھ دے، لیکن وہ لوگ جو سب کچھ گنوا بیٹھے، ان کے دلوں میں یہ درد ہمیشہ تازہ رہے گا۔