تیری دعاؤں کا ثمر دیکھا ہے
سفینے کی حفاظت میں بھنور دیکھا ہے
کانٹوں کی مسافت میں تیری دعا سے
پھول راہوں میں بدلتا سفر دیکھا ہے
رات اماوس کی جسے کہتے ہیں
تیرے ہاتھوں سے ابھرتا قمر دیکھا ہے
تیری نگاہِ کرم جس سمت پڑی
ادب سے جھکتا ہوا نگر دیکھا ہے
کڑی دھوپ میں غلام ابنِ غلام نے
سر پہ چلتا ہوا ابر دیکھا ہے
اس دورِ بے اماں میں نعیم نے
تیرا دستِ شفقت سر پر دیکھا ہے