تیری خود ساختہ نظر بندی سے شہر کا منظر بدل گیا
صبح و مسا کا فرق مٹا دوپہر کا منظر بدل گیا
پیاسہ پنچھی چونچ میں پتھر لئے سسک رہا ہے
گھڑا کب سے سوکھ چکا، نہر کا منظر بدل گیا
تیرے درگزر کے عادی تھے، کیا ہوا کہ یکایک
تو نے ترازو تھام لیا قہر کا منظر بدل گیا
علم کیسا بھی ہو مسلسل ریاضت چاہتا ہے
دل تیرے سوا بھی بہلنے لگا ،سَحر کا منظر بدل گیا
جس کا ڈسا سنتے تھے پانی نہیں مانگتا نعیم
تیرے وجود کو ڈسنے سے زہر کا منظر بدل گیا