طلاطموں کے بیچ میں بھنور تو خود سفر میں ہے
کہ منزلوں کے بھید کا سفر ، تو خود سفر میں ہے
مجاہدے، مراقبے ہیں سنگ میل گیان کے
سلوک کے مقام کا ہنر، تو خود سفر میں ہے
کھو چکا اس سے بھید منزلوں کا اے خدا مرے
ازل سے تیرا ہر کوئی بشر، تو خود سفر میں ہے
گمان کے تو تیر سے نہ کر یقین کا شکار
تری خرد کی ساری رہگزر تو خود سفر میں ہے
جہانِ رنگ و بو تو بس نظر کا ہی فریب ہے
یہ سمجھے گا نعیم کب نظر تو خود سفر میں ہے