تمام عمر یونہی خود کو دربدر کرتا رہا

غزل

تمام عمر یونہی خود کو دربدر کرتا رہا
جانے کس کس کے حصے کا سفر کرتا رہا

فرصت ہی نہ ملی مسلسل خود سوزی سے
تجھے بتاتا ترے بعد کیا نذر کرتا رہا

بچے پوچھتے رہے راستوں کے پیچ و خم
بتا نہ پایا میں کتابوں میں سفر کرتا رہا

تیری نفرت میں بھی اتنی شدّت کہاں
جتنا پیار تجھے میں بے خبر کرتا رہا

جذبوں سے بندھے رشتے بچانے کی خاطر
ہر خوشی نعیم اُن کی نذر کرتا رہا

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top