توڑ دو بے رحم بھوکی زنجیروں کو
کھا جاتی ہیں خوابوں کی تعبیروں کو
جوہری کہاں ہیں اس پتھر دنیا میں
جو پہچان سکیں یہاں ہیروں کو
شکاری نے بچھا رکھا ہے جال چار سُو
کون راستہ دے گا یہاں نخچیروں کو
جنہوں نے چھینے ہیں افکارِ زندگی
جلا دو ایسی سب تحریروں کو
میرے یہ صاف ہاتھ گواہ ہیں، نعیم
محنت سے مٹایا ہے الٹی لکیروں کو