(نعیم اللہ باجوہ آسٹریلیا)
تصوف اسلام کے باطنی پہلو کا نام ہے۔ یہ شریعت کے ظاہری اعمال کے ساتھ باطنی تزکیہ، نفس کی اصلاح، اور اللہ تعالیٰ سے قرب حاصل کرنے کی کوشش کو کہتے ہیں۔ تصوف کا اصل مقصد “اخلاص”، “توبہ”، “زہد”، “تقویٰ”، “توکل”، اور “محبتِ الٰہی” جیسے بنیادی اسلامی تصورات کو عملی زندگی میں نافذ کرنا ہے۔
1. رسول اللہ ﷺ اور تصوف:
یہ درست ہے کہ آپ ﷺ نے کسی مخصوص “صوفی طریقے” یا رسمی “روحانی تجربات” کی تعلیم نہیں دی، لیکن آپ ﷺ کی زندگی اور تعلیمات میں روحانیت، اخلاص، عاجزی، اور دنیا سے بے رغبتی کی روشن مثالیں موجود ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
“احسان یہ ہے کہ تُو اللہ کی عبادت ایسے کر گویا کہ تُو اُسے دیکھ رہا ہے۔”
(صحیح بخاری، کتاب الایمان)
یہی احسان کا درجہ تصوف کی اصل بنیاد ہے۔
2. صحابہ کرام اور روحانیت:
حضرت ابوذرؓ، حضرت بلالؓ، حضرت سلمان فارسیؓ، حضرت اویس قرنیؒ، اور دیگر کئی صحابہ کرام کی زندگیاں زہد و تقویٰ اور روحانیت سے بھرپور تھیں۔ ان کی زندگی میں دنیا سے بے رغبتی، اللہ سے تعلق، اور نفس کی اصلاح نمایاں نظر آتی ہے۔
3. امام غزالیؒ کا مقام:
امام ابو حامد الغزالیؒ نے فلسفہ، منطق، اصول فقہ، اور کلام میں بے مثال خدمات انجام دیں۔ اُن کی کتاب “احیاء علوم الدین” میں تصوف کو شریعت کے دائرے میں رکھا گیا ہے۔ اُن کا مقصد تصوف کو بدعت سے پاک کرنا اور اسے کتاب و سنت کی روشنی میں بیان کرنا تھا۔
4. تصوف اور سائنسی زوال:
یہ کہنا کہ تصوف نے مسلمانوں کو سائنس سے دور کیا، تاریخی طور پر درست نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ امام رازی، ابن سینا، عمر خیام، البیرونی، ابن الہیثم جیسے سائنسدانوں اور فلسفیوں کے عہد میں بھی صوفیاء موجود تھے، اور اکثر ان کی باہمی عزت کا رشتہ تھا۔ اصل زوال کی وجوہات سیاسی انتشار، مغلوں اور ترکوں کی آپسی لڑائیاں، اور نوآبادیاتی حملے تھے۔
5. تصوف اور محنت:
کبھی بھی کسی حقیقی صوفی نے “محنت نہ کرنے” کی تعلیم نہیں دی۔ حضرت علی ہجویریؒ (داتا گنج بخش)، حضرت مجدد الف ثانیؒ، حضرت بہاؤالدین زکریاؒ، حضرت نظام الدین اولیاؒ، سب نے علم، محنت، سچائی، خدمتِ خلق اور شریعت کی پاسداری پر زور دیا۔
6. تصوف کی خدمتِ دین اور انسانیت:
صوفیاء نے صرف روحانیت کی بات نہیں کی، بلکہ عملی طور پر اسلام کو پھیلانے، دلوں کو جوڑنے، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے، اور انسانیت کی خدمت کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ برصغیر میں لاکھوں لوگوں نے انہی صوفیاء کے حسنِ اخلاق سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا۔
تصوف اگر بدعت یا غلو میں مبتلا ہو تو وہ ناقابلِ قبول ہے، جیسا کہ ہر چیز کا ایک معتدل اور شریعت کے مطابق انداز ہی درست ہے۔لیکن اصل، خالص اور علمی تصوف دراصل دینِ اسلام کا روحانی جوہر ہے، جو نفس کی پاکی، دل کی صفائی، اور خالص محبتِ الٰہی پر مشتمل ہے۔
آپ کی صوفی شاعری سے محبت خود اس بات کا ثبوت ہے کہ روحانی جذبہ انسان کو پاکیزگی، محبت، اور امن کی طرف مائل کرتا ہے۔