تو بھی بس دیوار سمجھتا ہے مجھے
تُو تو میرے یار سمجھتا ہے مجھے
تیری خاطر گناہ چھوڑے سارے
اور تو ہی گنہگار سمجھتا ہے مجھے
یوسف ہو کے سربازار آیا ہوں
ہر شخص خریدار سمجھتا ہے مجھے
جس کو فردا سے باخبر رکھتا تھا
ردی کا اخبار سمجھتا ہے مجھے
تو میرے اس صبر کی وسعت کا نہ پوچھ
بس میرا معمار سمجھتا ہے مجھے
نادان ہے کتنا میرا صیاد نعیم
میں چیخ ہوں فریاد سمجھتا ہے مجھے