تو ہی دستِ بد دعا ٹھہرا
تجھے ڈھونڈنا خطا ٹھہرا
تیری قربتوں کا جبر تو
تیرے ہجر سے سوا ٹھہرا
رُکنا ہے باعثِ خود کُشی
کہاں آ کے ناخدا ٹھہرا
سفرِ جنوں کے سرائے میں
اپنا سایہ بھی جدا ٹھہرا
ناگوار گزرا جب دیکھنا
چُپ رہنا بھی صدا ٹھہرا
ہجر زدہ شہرِ اداس میں
ہر شخص درد آشنا ٹھہرا
رفیقِ اعلٰی تھا جو نعیم
وقت پڑا تو ناآشنا ٹھہرا