تو یہ سمجھتی ہے کہ ہارا گیا

غزل

تو یہ سمجھتی ہے کہ ہارا گیا
زندگی ترے ہاتھوں مارا گیا

ڈوب گیا ہجر کی شام میں
سورج مرے سینے سے گزارا گیا

سکوں ڈھونڈنے نکلا ہوں زمیں پر
سزا کے طور جہاں آدم اتارا گیا

ترے پانی کو آگ لگ جائے دریا
پیاسا قافلہ ترے کنارے مارا گیا

تری زباں پہ آیا تو فتوے لگے
ورنہ ہر زباں سے نعیم پکارا گیا

نعیم باجوہ

اپنی رائے سے آگاہ کریں

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Scroll to Top