تجھے اے ضعیفی، اس قدر بھی نہ پا سکوں
کہ تا لحد اپنے قدموں چل کر نہ جا سکوں
ہزار غم ہیں جو دل میں چبھے ہیں خاروں سے
چاہتا ہوں کہ سینے میں ان کو دفنا سکوں
اگرچہ وقت نے ہر خواب چھین لیا مجھ سے
مگر یہ خواہش کہ دنیا کو پھر ہنسا سکوں
ابھی بھی کچھ چراغ ہیں دل میں جل رہے
جن کی لو سے میں ہر ایک اندھیرا مٹا سکوں
تھکی ہوئی ہیں نگاہیں، مگر ہے دل میں تمنا
وہی خواب، وہی نقش، نعیم، سجا سکوں